چھوڑیں مواد پر جائیں

جینے کا سلیقہ آگیا

ھمیں چپ رہ کے جینے کا سلیقہ آ گیا ھے اب

کوئی لمحہ خوشی کا ھو یا دکھہ اترے رگِ جاں میں 

کوئی تنہا ھمیں کر دے کہ باندھے عہدِ پیماں میں

ھمیں اب کچھہ نہیں ھوتا  

یہ سب ماضی کے قصّے ھیں

کی ھم چڑیا کے مر جانے پہ پہروں جی جلاتے تھے

کبھی جذبوں کے آنگن میں نئے سپنے سجاتے تھے

ملن کی تتلیاں بھی اپنے پر پھیلایا کرتی تھیں

ھمیں کچھہ ان کہی باتیں سمجھہ آیا کرتی تھیں

کبھی ِاک نرم سرگوشی ھمیں خوابیدۃ کرتی تھی

کبھی چھوٹی سی کوئی بات بھی رنجیدہ کرتی تھی

یہ سب باتیں پرانی ھیں 

اب ایسا کچھہ نہیں ھوتا

حوادث نے لبوں پر مہرِ خاموشی لگادی ھے

خوشی کی بات کا ، غم کا اثر ھم پر نہیں ھوتا

نظر سے گل کھلانا کار گر ھم پر نہیں ھوتا

شگوفے کِھل اٹھیں یا پھر خزں میں ھم اکیلے ھوں

شفق آنگن میں اترے یا بدن خواہیش کے میلے ھوں

ھمیں اب کچھہ نہیں ھوتا

ھمین اب کچھہ نہیں ھوتا

جینے کا سلیقہ آگیا

ھمیں چپ رہ کے جینے کا سلیقہ آ گیا ھے اب

کوئی لمحہ خوشی کا ھو یا دکھہ اترے رگِ جاں میں 

کوئی تنہا ھمیں کر دے کہ باندھے عہدِ پیماں میں

ھمیں اب کچھہ نہیں ھوتا  

یہ سب ماضی کے قصّے ھیں

کی ھم چڑیا کے مر جانے پہ پہروں جی جلاتے تھے

کبھی جذبوں کے آنگن میں نئے سپنے سجاتے تھے

ملن کی تتلیاں بھی اپنے پر پھیلایا کرتی تھیں

ھمیں کچھہ ان کہی باتیں سمجھہ آیا کرتی تھیں

کبھی ِاک نرم سرگوشی ھمیں خوابیدہ کرتی تھی

کبھی چھوٹی سی کوئی بات بھی رنجیدہ کرتی تھی

یہ سب باتیں پرانی ھیں 

اب ایسا کچھہ نہیں ھوتا

حوادث نے لبوں پر مہرِ خاموشی لگادی ھے

خوشی کی بات کا ، غم کا اثر ھم پر نہیں ھوتا

نظر سے گل کھلانا کار گر ھم پر نہیں ھوتا

شگوفے کِھل اٹھیں یا پھر خزں میں ھم اکیلے ھوں

شفق آنگن میں اترے یا بدن خواہیش کے میلے ھوں

ھمیں اب کچھہ نہیں ھوتا

ھمیں اب کچھہ نہیں ھوتا 

٭٭٭٭٭ آسکر ایوارڈ ٭٭٭٭٭

<a href="” title=”آسکر ایوارڈ” target=”_blank”>

پتہ نہیں طبعیت میں عجیب بے چینی ہے ، خوشی بھی ہے اور رونے کی سی بھی کیفیت ہے، یہ کیا ھو رہا ہے سمجھ نہیں پا رہی ھوں ، کہیں خوشی ھو رہی ہے کہ ھمیں دنیا کے سب سے بڑا ایوارڈ آسکر سے نوازا گیا ہے اور اُن خواتین کے لیے آواز بُلند ھوئی جنکو تیزاب سے،آگ سے جلا دیا جاتا ہے، کہیں یہ بات دل کو رولائے دے رہی ھے کہ ھمارے قرآن کو جلایا جارہا ھے اُسکی بے حرمتی کی جا رہی ھے اور مسلمان جو کے انسان ہیں اُن کے حق کو پامال کیا جا رہا ھے، کہیں پیٹرول مہنگا ، کہیں غربت کی وہ انتہا کہ سوچ بھی نہیں سکتے، کہیں الیکشن میں تھپڑوں کی بارش کہ ووٹ دینے کیطرف دل مائل نہیں ھوتا کہ ووٹ دینے پر بھی فیصلہ وہی ھوگا جو ھمارے سیاستدان چاہتے ہیں، کہیں اپنے ملک میں خوبصورت دیدہ زیب نیئ نیئ لان کے سوٹوں کی لانچنگ، مہنگے سے مہنگے خوبصورت ڈیزائن کے ڈریس جنھیں دیکھکر دل خوش ھوتا ہے اور فخر کہ ھمارے یہاں ٹیلنٹ کی کمی نہیں ھے، کہیں عورتوں کی تذلیل اُنکو حقوق نہ ملنے کی خبریں اور کہیں مارننگ شوز میں خواتین کے بہادری، زہانت اور تعلیم کے چرچے کہ دل خوش ھے کہیں افسردہ اور کہیں رونے لگتا ھے، یہ کس کیفیت میں زندگی گزر رہی ھے،
کبھی دل کہتا ھے کہ یہ اپنا ملک ہے جیسا بھی ھے یہاں کی خوشی اور غم اپنے ہیں، ھمیں انکے ساتھ ہی جینا ھے اور کہیں کوئی یہ نصیحت کرتا ھوا دیکھائی دیتا ھے کہ کیا ہر وقت پاکستان کو ہی دماغ پر سوار کیا ھوا ھے بابا باہر نکلو پڑوسی ملک کے پروگرام دیکھو وہاں کے رنگ دیکھو سکون ملے گا خوشی ملے گی لیکن دل یہ کہتا ھے کہ دوسروں کا کلچر،مذہب،ترقّی دیکھکر کیا سکون مل جاتا ھے میرے خیال میں ایسا نہیں ھو سکتا کیونکہ ہر اچھی چیز جو ھم دوسروں کے پاس دیکھتے ہیں اُسے اپنے پاس دیکھکر خوشی ھوتی ھے اور یہی خواہش ھوتی ھے کہ اپنے ملک میں بھی امن ھو، محبّت ھو ، بھائی چارہ ھو، اپنی چیزوں پر فخر ھو، اپنے لوگ خوش دیکھائی دیں، تب ہی دل اندر سے خوشی محسوس کریگا، نہیں تو حالات ایسے ہیں کہ نہ سہی خوشی ھے نہ سہی سکون اس کیفیت میں زندگی کب تک چلنی ھے یہ نہیں جانتے لیکن جب جب خوشی کے آثار نظر آتے ہیں دل پاکستان کی ترقّی اور خوشحالی کے لیے دعا گو ھوتا ھے جیسے شرمین عبید کے آسکر ملنے پر ھم نے بہت خوشی محسوس کی اور دل سے اس ملک کی ترقّی اور خوشحالی کے لے دعائیں نکلیں، آللہ پاکستان کو بہت عزّت اور مرتبہ عطا کرے آمین

))))))))))) سوچیں ((((((((((((

یہ حقیقت ھے کہ زندگی میں مسایل انسان کو گھیرے رھتے ھیں اور ھم ہر دم کسی نہ کسی فکر یا پریشانی میں مبتلا رھتے ھیں اور اسی فکر ، پریشانی میں سوچ سوچ کر اپنے دن گزارتے رھتے ھیں ، کیوں نہ ھم کوشش کریں کے اس کیفیت سے اپنے آپ کو نکالیں اس کے لیے سب سے پہلے جب ھم اپنے دن کا آغاز کریں تو اپنے آپ سے یہ سوال کریں کہ آج کے دن آپ کیا کرنا چاھتے ھیں،
٭ کیا آج کا دن اپنے ماضی کے برے تجربات کے بارے میں سوچیں گے یا یہ سوچ کر پریشان رہینگے کے آپ اپنا مستقبل کیسے بہتر بناییں ـ
٭ اپنے آپ سے نفرت کرینگے کیونکہ لوگ آپ کو پسند نہیں کرتے ھیں ـ
٭ آپ یہ سوچیں گے کے میرا کوٰی دوست نہیں ھے اسلیے میں اکیلا ھوں ـ
٭ آپ یہ سوچ کر کہ فلاں شخص نے میرے بارے میں یہ راٰۓ دی ھے اور آپ اس کی راٰے کو سہی جان کر اپنے آپ کو حقیر سمجھنے لگیں گےـ
٭ یہ سوچیں گے کہ اگر س کام میں پیسہ ھے تو مجھے یہ کام کرنا چاھیے نہیں تو بیکاری میری قسمت میں کیوں ھے
٭ کیا آپ یہ چاھتے ھیں کہ آپ اپنے بارے میں سوچتے رھیں ـ
٭ کیا اپ اپنی ناکامیوں پر یہ سوچیں گے کہ میں اس لیے ناکام ھوں کے قصوروار میرے والدین ھیں یا میری زندگی کہ حالات ـ
٭ کیا اپ اپنے مسایل ، اپنی بیماری ، اپنی پریشانیوں کے بارے میں سوچیں گے کہ ایسا کیوں ھے ـ
کیا اپ ناراض ھوجایننگے ہر اس شخص پر جو آپ کے راستے میں آرہا ھے آپکی پریشانیوں کو دور
کرنے کیلیے ـ
یہ سب میدرجہ بالا سوچیں انسان کو پریشان رکھتی ھیں اور بندہ ان سوچوں میں ڈوبتا چلا جاتا ھے، ان سوچوں سے نکلنے کا بہت آسان سا راستہ ھے ِ،
معاف کردیں
بھول جاییں
آگے کیطرف چل دیں
یہ سب اگر ھم کرلیں تو اس سے ھمیں ملیں گی حقیقی
خوشیاں
کامیابیاں
سکون و اطمنان
اب فیصلہ آپ پر ھے کہ اسپر عمل کرکے اپنی الجھنوں کو کم کریں یا ویسے ھی رھنے دیں ، ہر کام سے پہلے آپ اپنے اندر یہ یقین پیدا کرلیں کہ جو منزل آپ نے پانی ھے اس کے راستے میں حایل ہر روکاوٹ ہر مشکل کو آپ عبور کر سکتے ھیں، صرف سوچتے رھنے سے ھم کچھ حاصل نہیں کر سکتے جب تک بہتری کے لیے عملی قدم نہ اٹھاییں اور یہ اقدام ھمیں بہت سے فایدے پہنچاتے ھیں جن سے زندگی کے بارے میں ھم بہت کچھ جان کر اسے اپنے لیے اور دوسروں کے لیے آسان بنا سکتے ھیں –

ـ

ۂۂۂۂۂ انوکھا لاڈلا ۂۂۂۂۂ

<a href="” title=”انوکھا لاڈلا” target=”_blank”>

انوکھا لاڈلا کھیلن کو مانگے چاند رے انوکھا لاڈلا
کیسی انوکھی باات رے
انوکھا لاڈلا کھیلن کو مانگے چاند رے
تن کے گھاو تو بھر گیے داتا من کا گھاو نہیں بھر پاتا
جی کا حال سمجھ نہیں آتا کیسی انوکھی باات ھے
انوکھا لاڈلا کھیلن کو مانگے چاند رے انوکھا لاڈلا
پیاس بجھے کب اک درشن سی تن سلگے بس ایک اگن میں
من بولے رکھلوں نینن میں کیسی انوکھی باات ھے
انوکھا لاڈلا کھیلن کو مانگے چاند رے انوکھا لاڈلا
جس پے نہ بیتی وہ کب جانے جگ والے آے سمجھانے
پاگل من کوٰی بات نہ مانے کیسی انوکھی باات ھے
انوکا لاڈلا کھیلن کو مانگے چاند انوکھا

؟؟؟؟؟؟؟

میرے اللہ ھم مسلمانوں کو اس زلّت سے نکال، ھمیں ھیدایت دے کے ھم بھٹکنے سے بچ جاییں، ھمیں بھلاٰی کا راستہ دکھاکے مزیدزلّت اور رسواٰی ھمارے مقدّر سے مٹ جایے –آمین

ھمارے ٹی وی ڈرامے

آجکل پاکستان ٹی وی چینلز پرڈرامے اچھے آرہیے ہیں،ہر چینل پر ڈرامہ اچھا ھے، کون سا دیکھیں کونسا نہیں دیکھیں والا معاملا نہیں ہے سب اچھے ھیں ، میرے ٹی وی ٹایمینگ شام 30 : 7 سے 30 : 9 تک ھے، اسمیں ھم چینل ، اے ۔آر۔ واٰے ڈیجیٹل اور باقی دوسرے چینل کے بھی ڈرامے دیکھتی ھوں، پروڈکشن اچھی ھے سب ڈراموں کی ارٹسٹ بھی اچھا کام کر رہیے ھیں۔ اگرچہ ابھی یہ شروعات ھیں اور آگے آگے ھماری پروڈکشن انشااللہ اور اچھی ھو جایینگی اگر خلوص نیت برقرار رہی تو-
ان ہی پاکستانی چینل پر انڈین ڈرامے اور پروگرام بھی دیکھایے جاتے ھیں جنکی میں سمجھتی ھوں ضرورت نہیں ھے لیکن شاید یہ اسلیے ضروری ھے کہ ھماری عوام انڈین ڈراموں سے متاثر ھے یا اشتہارات ان ڈراموں کو زیادہ ملتے ھیں یا اسلیے کے ھمارے چینل والے چاہتے ھیں کے ھمارے ڈرامے بھی انڈین چینل پر دیکھایے جاییں تاکہ ھمارا ڈرامہ زیادہ ناظرین دیکھیں-
مگر ان سب کے ساتھ ساتھ ھمارے پروگراموں میں ناچ گانا بہت زیادہ ھو کیا ھے جو ھماری ثقافت نہیں ھے ، اگر ھم اپنے مذہب ، اپنے کلچر کو اپنے ڈراموں میں شامل کرکے پیش کریں تو یہ ڈرامے معاشرے کے سدھار کا بھی باعث بنیں گے اور ھم مسلمان جو اپنے مذہب سے دور جا رہیے ھیں اور ھمارے بچّے جو دوسرے مذہب اور کلچر کو فا لو کر رہیے ھیں کیونکہ انڈیا اپنے ڈراموں کے زریعے بھی اپنے مذہب کا پرچار کر رہا ھے اور کارٹون چینلز پر بھی اپنے مذہبی ہیروز کے کارٹون بنا کر دکھا رہا ھے جسے ھمارے بچّے شوق سے دیکھ رھے ھیں اسلیے اسطرف توجہ کی ضرورت ھے-

٭٭٭٭٭ زندگی ہنسنے ہنسانے کے لیے ھے ٭٭٭٭٭

زندگی مشکل ھے یا ھماری سوچ اسے مشکل بناتی ھے ،میرے خیال میں زندگی مشکل ھے اور ھماری نیگیٹیو سوچ اسے اور مشکل بنا دیتی ھے، کیا اسکو ایک مثبت سوچ کے ساتھ بہتر بنایا جا سکتا ھے تو کیسے؟
خوشیاں اسقدر ناپید ھیں کہ ہر شخص پریشان، غمگین دیکھاٰی دیتا ھے، کسی کو صحت کا مسلہ، کسی کو بچوں کا، کسی کو شادی کا ،جاب کا، اچھے اسٹیٹس وغیرہ کا یا کسی کے ساتھ یہ سارے مساٰیل ھیں اور رات دن اسی میں گھل رھے ھیں، کیا یہی زندگی ھے کے جو ھم چاہ رھے ھیں وہ ھم کو مل جاٰے تو ھم خوش ھونگے نہیں تو اس زندگی کا کیا فاٰیدہ
بچپن سے سنتے چلے آییں ھیں کے زندگی میں خوش رہنے کا کوٰی فارمولہ نہیں ھے، لیکن میرے نزدیک اگر سوچ کو پوزیٹو کرلیا جاٰے تو بہت حد تک زندگی خوش و خرّم بناٰی جا سکتی ھے-
ہردم اس سوچ کے ساتھہ جیٰیں کہ میری زندگی بہت اچھی ھے اور اس فکر کو چھوڑیں کے دوسروں کے پاس کیا ھے اور آپکے پاس انکے مقابلے میں کیا ھے اگر یہ سوچ ھوگی تو دنیا جہاں کی دولت بھی اگر کسی شخص کو مل جاٰے تو وہ مطمعن نہیں ھوگا کیونکہ اسکو پھر یہ سوچ ستایے گی کہ دوسرا مجھہ سے زیادہ امیر نہ ھو جایے یعنی سوچ کی کوی انتہا نہیںھے بلکہ اگر اسی سوچ کو مثبت رخ سے دیکھتے ھویے جو حاصل ھے اسی میں خوش رہنا سیکھیں اور دوسرں کو دیکھکر جیلس ھونا چھوڑ دیں تو بہت سا وقت برباد ھونے سے بچ سکتا ھے-
زندگی میں کچھہ چیزوں پر انسان کا زور نہیں چلتا ھے تو پھر اس فکر میں دبلے کیوں ھوں کہ پتہ نہیں یہ جاب مجھکو ملے گی یا نہیں اگر نہ ملی تو اچھا اسٹیٹس کیسے بنا سکوں گا، یا یہ کے اگر میری اس جگہ شادی نہ ھویٰ تو جی نہیں سکوں گا، ایگزام دینے کے بعد پریشان رہنا کہ اتنے نمبر آیینگے بھی کے نہیں، فنگشن میں جانا ھے تو یہ سوچ پریشان کر رہی ھے کہ دوسرے مجھہ سے ذیادہ اچھے کپڑے نہ پہین لیں ، یہ الجھاوٰ انسان کے زہین و دل کو کمزور بنا دیتا ھے اور حاصل بھی کچھہ نہیں ھوتا ھے-
بہت ذیادہ سنجیدگی کے ساتھہ اپنا تنقیدی جایزہ نہ لیں کہ میں نے فلاں شخص سے ایسا کیوں کہا یا مجھکو ایسا کرنا چاھیے تھا میں نے ایسا کیوں کیا، فلاں شخص مجھکو دیکھہ رہا تھا وہ میرے بارے میں ایسی رایے رکھتا ھے، محفل میں میں سہی ڈریس اپ ھوکر نہیں گیا یا گٰیی، ایسی سوچیں انسان کو احساس کمتری میں مبتلا کرتی ھیں اور غمزدہ بناتی ھیں-
اپنی اصلاح ضرور کریں اپنی گفتگو کو بہتر بناییں، غیبت سے بچاییں اپنے کو اور وہ وقت جو دوسروں کی غبیت میں گذار دیتے ھیں اس میں مطالعے کی عادت کو اپناییں کتابیں پڑھیں کیونکہ بی۔ اے ، ایم۔ ۔اے ، کرلینے کے بعد علم کے حصول کو روک نہیں دینا چاہیے بلکہ علم کے حصول کو مطالعے کی شکل میں جاری رکھیں ، علم کی کوٰی حد نہیں یہ جہاں سے بھی جیسے بھی ملے حاصل کرٰیں اس سے ھمارے اندر اعتماد پیدا ھوگا-
اپنے آپ کو ریلیکس ضرور کریں اور دن کے کسی بھی حصّے میں 10 منٹ کیلیے آنکھیں بند کرکے خاموشی کے ساتھہ اسطرح بیٹھیں کر کوٰی سوچ آپکو پریشان نہ کرے، رات کو کم از کم 7 گھنٹے کی نیند ضرور لیں، واک کرنے کی عادت ڈالیں اور واک غصّے یا پریشانی کہ عالم میں نہیں بلکہ ہنستے مسکراتے ھویے کریں
جو وقت گذر گیا اسکی تلخ یادوںکو دل میں رکھکر آنے والے وقت کو خراب نہ کریں – وہ لوگ جو آپکے ارد گرد ھیں انکی ماضی کی غلطیاں یاد دلا کر تعلقات خراب نہ کریں- انکے راویوں سے سبق ضرور سیکھیں اور زندگی میں دوبارہ ان سے بیواقوف نہ بنیں-کیونکہ وقت سے سیکھا ھوا سبق آپ کے آگے کام آتا ھے –بدلہ لینا یا بدلے کے لییے بیتاب رہنا یہ زندگی میں تلخیاں بھر دیتا ھے اور زندگی ویسے بھی مختصر ھے اسے غم میں گذارنے کے بجاٰے وقت کو اسطرح سے بہتر بناییں کے خشیاں ذندگی میں سما سکیں –

بیکار میں بحث موبحاثے کو طول نہ دیں بلکہ کسی بھی معاملے میں یہ جان لینے کے بعد کہ آپ دوسرے شخص سے اتفاق نہیں رکھتے تو خاموش ھوجانا بہتر ھے، دوسروں کو انکی غلطیوں پر معاف کرنا سیکھیں، کسی کو تکلیف میں دیکھیں تو اسکو اپنے سے آرام پہنچاییں کہ یہی انسانییت ھے، ایسے کرنے سے اندرونی خوشیاں ملتی ھیں-
بڑی بڑی خوشیوں کے انتظار میں چھوٹی چھوٹی خشیوں کو نظرانداز نہ کرٰیں، اپنے جسم کو روز مرّہ کے کاموں میں مصروف رکھیں اور ہلکی پھلکی ایکسرسایز کے لیے بھی وقت نکالیں تاکہ باڈی بیلنس رھیے-
جان ھے تو جہان ھے کے مطابق اپنا کھانا پینا کریں صبح کا ناشتہ بادشاہوں کیطرح ،دوپہر کا کھانا شہزادوں کیطرح اور رات کا کھانا فقیروں کیطرح کریں ، خوب پانی پییں تقریبا” 8 – 10 گلاس،سبزیاں،پھل کھاییں ،گوشت مناسب مقدار میں کھاییں ،کسی بھی پسندیدہ چیز کی خواھیش میں اپنے کو بھوکا نہ رکھیں کہ وہ چیز ھوگی تو کھانا کھاییں گے نہیں تو نہیں-
اپنی زندگی اور قسمت پر یقین رکھیں کہ میری زندگی کا بہتریں وقت ابھی آنے والا ھے ، زندگی رکتی نہیں ھے اچھا یا برا وقت گزر جاتا ھے، ہر نیے دن کے آغاز پر اللہ کا شکر ادا کریں اس نے آپکو ذندگی کا ایک اور دن دیا ھے، خوش رھیں اور دوسروں کو بھی خوش رکھیں اور ذندگی کی ہر چیز سے لطف اندوز ھوں ،ارد گرد کے لوگوں سے ھنسیں بولیں اور ایکدوسرے سے خوشیاں بانٹیں کہ زندگی ھنسنے ھنسانے کے لیے ھے–

قہقہے لگاییں اگر دل کی بیماریوں سے محفوظ رہنا ھے٭٭٭

آجکل بار بار قہقہے لگانے کو دل کررہا ھے اور یہ محسوس بھی ھو رہا ھے کے ارد گرد کے لوگ عجیب عجیب نظروں سے دیکھ رھے ھیں مگر کیا کریں ھماری نظروں سے ایسی تحریر گذری ھے کے ھمیں اب کسی کی بھی پرواہ نہیں ھے کے کوٰی شک میں مبتلا ھو یا نہ ھو ھمیں تو اپنی بہتری دیکھنی ھے اور میں چاھونگی کے آپ کو بھی اس بہتری سے آگاہ کروں تا کہ آپ سب بھی اپنے لیے اچھا چاھیں-
آج کے دور میں پریشانیاں اتنی ذیادہ ھو گٰی ھیں کہ انسان کو خوش ھونے کا موقع بہت کم ملتا ھے جسکی وجہ سے انسان کی صحت کا معیار بھی روز بروز کم ھوتا جا رہا ھے- اکثر لوگ ایسےملتے ھیں جن میں مرض کی علامات تو ھوتی ھیں مگر مرض نہیں ھوتا لیبارٹری ٹیسٹ ، ایکسرے ، ای سی جی وغیرہ سے بھی ان امراض کی تصدیق نہیں ھوتی کیونکہ ان کا تعلق زہنی یا نقسیاتی امراض سے ھوتا ھے-
یہ ایک پرانی کہاوت ھے کے خوش و خرّم رہنے والا انسان کبھی بیمار نہیں ھوتا اور اگر کوٰی شخص ہنسنے والا بھی ھو تو اس کے بیمار ھونے کا تو سوال ھی پیدا نہیں ھوتا- اوا اب تو ساینسدانوں نے بھی تحقیق کے زریعے پتہ لگایا ھے کہ قہقہہ لگانے سے انسانی جسم میں خون کی گردش کا نظام بہتر ھوجاتا ھے جس کی وجہ سے دل کی بیماریوں کے خطرات کم ھو جاتے ھیں-
میری لینڈ سکول آف میڈیسن با لٹی مور امریکہ میں ھونے والی تحقیق نے بتایا ھے کہ قہقہے خون کی شریانوں کو مضبوط کرتے ھیں اور زہنی تناو کی کیفیت خون کی گردش میں روکاوٹ کا باعث بنتی ھے – ماہرین نے راے دی ھے کہ ایک ہفتے میں تین بار ادھے گھنتے کی ورزش اور روزانہ پندرہ منٹ تک قہقہے لگا کر نہ صرف دل بلکہ ہر طرح کی بیمریوں سے بچا جا سکتا ھے اور یہ کوی مشکل کام نہیں ھے-
بس ذرا دھیان رکھیے گا کے ارد گرد کوٰی موجود نہ ھو، کیونکہ خوامخواہ ھم کیوں لوگوں کو باتیں بنانے کا موقع دیں-

——- ھمارے نیوز چینلز ——-

صبح اٹھی تو سر بھاری بھاری ھو رہا تھا، ناشتہ کیا، ٹی وی دیکھا لیکن طبعت بحال نہ ھوٰٰی ، برنچ ٹاٰیم میں چاٰے پی کچھ ڈراٰی فروٹ لیا اور ساتھ میں ٹی وی بھی دیکھتی رہی جسمیں مارننگ شوز، کوکنگ شوز وغیرہ شامل تھے مگر سب کے باوجود سر کا بھاری پن اپنی جگہ موجود رہا، میڈیسن کی میں چور ھوں مشکل سے دواٰٰی لیتی ھوں وہ بھی جب جب حالت کنٹرول سے باہر ھو، ظّہر کی نماز کے لیے وضو کی نماز پڑھی اوپر ٹیرس پر اچھی دھوپ آرہی تھی، سردیوں کی دھوپ تو جسم کے لیے فایدہ مند ہی ھوتی ھے سو کچھ دیر وہاں بیٹھی تو سر کے درد میں کچھ آفاقہ ھوا یعنی دھوپ نے ارام پہنچایا تو خیال آیا کہ کل سارا وقت نیوز چینل دیکھا جسپر سارے اینکر پرسن یہی بتانے میں مصروف تھے کے حکومت اور فوج میں محاذ آراٰی اور حالات یہ بتا رہے تھے کے جیسے فوج آنے والی ھے اور اس چیز کو ھمارے نیوز چینل والے ایکدوسرے سے بڑھکر پیش کر رھے تھے،
گو کے میں نے اتنا نہیں دیکھا کیونکہ معلوم ھے کہ اتنا کچھ ھوتا نہیں جتنا خبریں والے بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ھیں مگر پھر بھی ان خبروں نے میرے سر میں درد ھی کر دیا، کیا فایدہ ایسی انفورمیشن کا جو انسان کو بیمار کردیں لیکن نیوز چینلز اپنے پیسے بنانے اور ریٹنگ بڑھانے میں لگے ھوٰے ھیں ان کی بلا سے کوٰلی بیمار ھو نہ ھو خبر غلط ھے سہی ھے ایکدوسرے سے پہلے پہنچانی ھے،
اس ملک کی حکومت ، اس ملک کا میڈیا، اس ملک کے ادارے کسی نہ کسی طرح سے لوگوں کو بیمار کر رھے ھیں اور یہ بیمار معاشرہ کسطرح چل رہا ھے یہ صرف اللہ ہی جانتا ھے-